رات کی جلتی تنہائی میں
اندھیاروں کے جال بُنے تھے
دیواروں پہ تاریکی کی گرد جمی تھی
خوشبو کا احساس ہوا، میں ٹوٹ رہا تھا
دروازے بانہیں پھیلائے اونگھ رہے تھے
دور سمندر پار ہوائیں بادلوں سے باتیں کرتی تھیں
ایسے میں ایک نیند کا جھونکا
لہر بنا اور گزر گیا
پھر آنکھ کُھلی تو اس موسم کی پہلی بارش
اور تیری یادیں
دونوں مل کر ٹوٹ کر برسیں
اندھیاروں کے جال بُنے تھے
دیواروں پہ تاریکی کی گرد جمی تھی
خوشبو کا احساس ہوا، میں ٹوٹ رہا تھا
دروازے بانہیں پھیلائے اونگھ رہے تھے
دور سمندر پار ہوائیں بادلوں سے باتیں کرتی تھیں
ایسے میں ایک نیند کا جھونکا
لہر بنا اور گزر گیا
پھر آنکھ کُھلی تو اس موسم کی پہلی بارش
اور تیری یادیں
دونوں مل کر ٹوٹ کر برسیں
سلیم کوثر
No comments:
Post a Comment