Monday, 8 December 2014

جیسے کہ رات بیت گئی خواب کے بغیر

جیسے کہ رات بِیت گئی خواب کے بغیر
میری یہ پہلی عید تھی، احباب کے بغیر
یوں بے دلی کے ہاتھ سے خالی پڑا ہے دل
جیسے کوئی مکان ہو اسباب کے بغیر
اک آدھ دوست دشمنوں جیسا بھی چاہیئے
دریا سراب لگتا ہے گرداب کے بغیر
بے بات بھی الجھتے ہیں اب لوگ شہر میں
چھڑنے لگے ہیں ساز یہ مضراب کے بغیر
حرف غلط نہیں، پہ زمانہ بھی کیا کرے
لکھا گیا ہو جب مجھے اعراب کے بغیر

لیاقت علی عاصم

No comments:

Post a Comment