Monday 8 December 2014

بے رخی کا اوروں کی ہم حساب کیا کرتے

بے رخی کا اوروں کی ہم حساب کیا کرتے
اپنے آپ سے برتے اجتناب کیا کرتے
مسئلہ تو اتنا تھا عمر بھر کی دشواری
زندگی تھی اور اس کا سدِ باب کیا کرتے
جب محاسبہ اپنے شوق کا نہ کر پائے
پھر کسی کی آنکھوں کا احتساب کیا کرتے
قیمتاً کہیں سے بھی بے خودی نہیں ملتی
دستیاب ہوتی بھی گر شراب، کیا کرتے
اک طرف کھڑا تھا تُو، اک طرف تِری خواہش
ایسی آزمائش میں انتخاب کیا کرتے
آفتاب ڈوبا تو آنکھ بھی بجھا ڈالی
اس قدر اندھیرے میں میرے خواب کیا کرتے
علم رکھنے والوں کا ایک المیہ یہ تھا
بے سوال لوگوں کو لاجواب کیا کرتے

سید مبارک شاہ

No comments:

Post a Comment