Wednesday 10 December 2014

اک لو تھی مرے خون میں تحلیل تو یہ تھی

اک لَو تھی مِرے خون میں تحلیل تو یہ تھی
اک برق سی رَو تھی میری قندیل تو یہ تھی
تیرے رُخِ خاموش سے میری رگِ جاں تک
جو کام کیا آنکھ نے ترسیل تو یہ تھی
بننا تھا تو بنتا نہ فرشتہ نہ خدا میں
انسان ہی بنتا، مِری تکمیل تو یہ تھی
سانپوں کے تسلط میں تھے چڑیوں کے بسیرے
مفتوح گھرانے! تِری تمثیل تو یہ تھی
ٹِیلے کا کھنڈر صدیوں کی تاریخ لیے تھا
اجمال بتاتا تھا کہ تفصیل تو یہ تھی
وہ جانتا تھا سجدہ فقط تجھ کو روا ہے
پلٹا نہ پھر اس حکم سے تعمیل تو یہ تھی
اک خواب دھندلکوں میں بکھرتا ہوا کوثرؔ
آخر رُخِ تعبیر کی تشکیل تو یہ تھی

اقبال کوثر

No comments:

Post a Comment