Thursday 4 December 2014

ہمیں تو یوں بھی نہ جلوے ترے نظر آئے

ہمیں تو یوں بھی نہ جلوے تِرے نظر آئے
نہ تھا حجاب، تو آنکھوں میں اشک بھرآئے
ذرا سی دیر میں دنیا کی سیر کر آئے
کہ لے کے تیری خبر تیرے بے خبر آئے
اسیر ہونے کے آثار پھر نظر آئے
قفس سے چھوٹ کر آئے تو بال و پر آئے
تجھے ملال ہے ناکامئ نظر کا فضول
نظر میں جو نہ سمائے وہ کیا نظر آئے
وہ جانتا ہے، میں پابندِ رسم و راہ نہیں
فضول ٹھوکریں کھانے کو راہبر آئے
تمام عمر یہ ناکامیاں قیامت ہیں
کبھی کبھی تو الٰہی! امید بر آئے
جسے تصرفِ تیرِ نظر نہ ہو معلوم
وہ تیرے سامنے لے کے دل و جگر آئے
شریکِ قسمتِ تنہائئ فراق ہوں میں
اجل بھی کیوں تِرے آنے سے پیشتر آئے
بلائے جاں ہے وہ نصفِ شباب کا عالم
کسی حسِین کی جب زلف تا کمر آئے
نگاہِ جلوہ میں شاید سما گئے سیمابؔ
کہ منتظر گئے لوٹے تو منتظر آئے

سیماب اکبر آبادی​

No comments:

Post a Comment