بڑی مشکل سے کچھ تسکین کے پہلو نکلتے ہیں
جگر پھٹتا ہے، جب آنکھوں سے دو آنسو نکلتے ہے
ہماری بے کسی یارانِ گلشن! دیکھتے رہنا
کہ ہم کنجِ قفس سے بے پر و بازو نکلتے ہیں
کبھی وہ دن بھی تھے، لب پر ہمارے خندۂ گُل تھا
مگر اب تو ہنسی کے نام سے آنسو نکلتے ہیں
تِری محفل میں اپنی آمد و شد کا یہ عالم ہے
بشکلِ رنگ آتے ہیں، برنگِ بُو نکلتے ہیں
چھپائے سے کہیں سیمابؔ! رازِ عشق چھپتا ہے
نہیں ہے درد پہلو میں تو کیوں آنسو نکلتے ہیں
جگر پھٹتا ہے، جب آنکھوں سے دو آنسو نکلتے ہے
ہماری بے کسی یارانِ گلشن! دیکھتے رہنا
کہ ہم کنجِ قفس سے بے پر و بازو نکلتے ہیں
کبھی وہ دن بھی تھے، لب پر ہمارے خندۂ گُل تھا
مگر اب تو ہنسی کے نام سے آنسو نکلتے ہیں
تِری محفل میں اپنی آمد و شد کا یہ عالم ہے
بشکلِ رنگ آتے ہیں، برنگِ بُو نکلتے ہیں
چھپائے سے کہیں سیمابؔ! رازِ عشق چھپتا ہے
نہیں ہے درد پہلو میں تو کیوں آنسو نکلتے ہیں
سیماب اکبر آبادی
No comments:
Post a Comment