Tuesday 9 December 2014

لفظوں کی یہ چترنگ غزل گوئی نہیں ہے

لفظوں کی یہ چترنگ، غزل گوئی نہیں ہے
اک غم کا فسانہ ہے، سخن شوئی نہیں ہے
معکوس ہزاروں ہیں سرِ آئینۂ ذات
حیراں ہوں پسِ آئینہ تو کوئی نہیں ہے
جب سے چلا ہے سلسلۂ آمد و آورد
حیرت سے مِری آنکھ کبھی سوئی نہیں ہے
جنگل میں کوئی چیز کبھی گم نہیں ہوتی
واپس ہوئی ہر ایک صدا، کھوئی نہیں ہے
یلغار پتنگوں کی ہے، صرصر بھی ہے دشمن
بجھ بجھ کے جلی شمع، مگر روئی نہیں ہے
برپا ہے تماشائے بشر جب سے زمیں پر
اس روز سے ہی چشمِ فلک سوئی نہیں ہے
ہم غسل و وضو کر کے رکھیں پاک بدن کو
اک روح کی چادر ہی کبھی دھوئی نہیں ہے
بس فصل تمنا ہے روا نرم زمیں پر
بے آب چٹانوں پہ امرؔ بوئی نہیں ہے

امر روحانی

No comments:

Post a Comment