Tuesday 9 December 2014

بہتے ہوئے دریا کی روانی کو سمجھتا

بہتے ہوئے دریا کی روانی کو سمجھتا
لگتی جو تجھے پیاس تو پانی کو سمجھتا
کرنا تھا تجھے عشق تو پھر عشق سے پہلے
بہتر تھا محبت کے معانی کو سمجھتا
دیتا نہ کبھی ٹوٹنے پندارِ محبت
اے کاش تُو خود میری کہانی کو سمجھتا
ہجرت کا سبق مجھ کو وہی دینے لگا ہے
جو شخص نہیں نقل مکانی کو سمجھتا
رہتا نہ کبھی بھی وہ مِرے خواب سے باہر
اک بار جو جذباتِ جوانی کو سمجھتا
آتا جو ہنر مجھ کو خریداری کا، میں بھی
بازارِ زمانہ کی گِرانی کو سمجھتا
گمبھیر مسائل میں شب و روز کے اشرفؔ
فرصت تھی کسے، رات کی رانی کو سمجھتا

اشرف نقوی

No comments:

Post a Comment