بہتے ہوئے دریا کی روانی کو سمجھتا
لگتی جو تجھے پیاس تو پانی کو سمجھتا
کرنا تھا تجھے عشق تو پھر عشق سے پہلے
بہتر تھا محبت کے معانی کو سمجھتا
دیتا نہ کبھی ٹوٹنے پندارِ محبت
اے کاش تُو خود میری کہانی کو سمجھتا
ہجرت کا سبق مجھ کو وہی دینے لگا ہے
جو شخص نہیں نقل مکانی کو سمجھتا
رہتا نہ کبھی بھی وہ مِرے خواب سے باہر
اک بار جو جذباتِ جوانی کو سمجھتا
آتا جو ہنر مجھ کو خریداری کا، میں بھی
بازارِ زمانہ کی گِرانی کو سمجھتا
گمبھیر مسائل میں شب و روز کے اشرفؔ
فرصت تھی کسے، رات کی رانی کو سمجھتا
لگتی جو تجھے پیاس تو پانی کو سمجھتا
کرنا تھا تجھے عشق تو پھر عشق سے پہلے
بہتر تھا محبت کے معانی کو سمجھتا
دیتا نہ کبھی ٹوٹنے پندارِ محبت
اے کاش تُو خود میری کہانی کو سمجھتا
ہجرت کا سبق مجھ کو وہی دینے لگا ہے
جو شخص نہیں نقل مکانی کو سمجھتا
رہتا نہ کبھی بھی وہ مِرے خواب سے باہر
اک بار جو جذباتِ جوانی کو سمجھتا
آتا جو ہنر مجھ کو خریداری کا، میں بھی
بازارِ زمانہ کی گِرانی کو سمجھتا
گمبھیر مسائل میں شب و روز کے اشرفؔ
فرصت تھی کسے، رات کی رانی کو سمجھتا
اشرف نقوی
No comments:
Post a Comment