Tuesday 9 December 2014

یہ جو گرتی ہوئی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں

یہ جو گِرتی ہوئی دیوار سنبھالے ہوئے ہیں
خلق کہتی ہے اسی گھر کے نکالے ہوئے ہیں
شہرِ جاں بخش ہمیں تُو تو حقارت سے نہ دیکھ
جیسے بھی ہیں تِری آغوش کے پالے ہوئے ہیں
کوچہ گردی کی ہوس ہے، نہ تمنا، نہ دماغ
پھر یہ کیا ہے کہ جو اب پاؤں میں چھالے ہوئے ہیں
بارشیں جن کی امانت ہیں وہ بادل ہوں کہ ریت
سب کسی ایک سمندر کے اچھالے ہوئے ہیں
پسپا ہوتے ہوئے لشکر کے سپاہی، مِرے لفظ
بجھتے بجھتے بھی زمانے کو اجالے ہوئے ہیں
پہلے فرصت ہی کہاں تھی کہ تماشا کرتے
دل نے ضد کی ہے تو اب دیکھنے والے ہوئے ہیں
جن سے ہم دشت نوردوں کا بھرم قائم تھا
اب وہ چشمے بھی سمندر کے حوالے ہوئے ہیں
میر و غالب کی طرح شہر میں رُسوا ہوں گے
دونوں ہاتھوں سے جو دستار سنبھالے ہوئے ہیں

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment