Tuesday 9 December 2014

ہجر کی دھوپ میں چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

ہجر کی دھوپ میں چھاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
آنسو بھی تو ماؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
رستہ دیکھنے والی آنکھوں کے انہونے خواب
پیاس میں بھی دریاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
خود کو بکھرتے دیکھتے ہیں کچھ کر نہیں پاتے لیکن
پھر بھی لوگ خداؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
ایک زرا سی جوت کے بَل پر اندھیاروں سے بیر
پاگل دِیے🪔 ہواؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
رنگ سے خوشبوؤں کا ناتا ٹوٹتا جاتا ہے
پھول سے لوگ خزاؤں جیسی باتیں کرتے ہیں
ہم نے چپ رہنے کا عہد کیا ہے اور کم ظرف
ہم سے سخن آراؤں جیسی باتیں کرتے ہیں

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment