Tuesday 9 December 2014

کوئی مژدہ نہ بشارت نہ دعا چاہتی ہے

کوئی مُژدہ نہ بشارت نہ دعا چاہتی ہے
روز اک تازہ خبر، خلقِ خدا چاہتی ہے
موجِ خوں سر سے گزرنی تھی سو وہ بھی گزری
اور کيا کوچۂ قاتل کی ہوا چاہتی ہے
شہرِ بے مہر میں لب بستہ غلاموں کی قطار
نئے آئینِ اسیری کی بِنا چاہتی ہے
کوئی بولے کہ نہ بولے، قدم اٹھیں نہ اٹھیں
وہ جو اک دل میں ہے دیوار اٹھا چاہتی ہے
ہم بھی لبیک کہیں اور فسانہ بن جائیں
کوئی آواز سرِ کوہِ ندا چاہتی ہے
یہی لو تھی کہ الجھتی رہی ہر رات کے ساتھ
اب کے خود اپنی ہواؤں میں بجھا چاہتی ہے
عہدِ آسودگئ جاں میں بھی تھا جاں سے عزیز
وہ قلم بھی مرے دشمن کی انا چاہتی ہے
بہرِ پامالئ گل آئی ہے اور موجِ خزاں
گفتگو میں روشِ بادِ صبا چاہتی ہے
خاک کو ہمسرِ مہتاب کِیا رات کی رات
خلق اب بھی وہی نقشِ کفِ پا چاہتی ہے

افتخار عارف

No comments:

Post a Comment