Friday 12 December 2014

دل کے اندر درد آنکھوں میں نمی بن جائیے

دل کے اندر درد آنکھوں میں نمی بن جائیے
اس طرح ملیے کہ جزوِ زندگی بن جائیے
اک پتنگے نے یہ اپنے رقص کے آخر میں کہا
روشنی کے ساتھ رہیے، روشنی بن جائیے
جس طرح دریا بجھا سکتا نہیں صحرا کی پیاس
اپنے اندر ایک ایسی تشنگی بن جائیے
دیوتا بننے کی حسرت میں معلّق ہو گئے
اب ذرا نیچے اترئیے آدمی بن جائیے
جس طرح خالی انگوٹھی کو نگینہ چاہئیے
عالمِ امکاں میں اک ایسی کمی بن جائیے
عقلِ کُل بن کر تو دنیا کی حقیقت دیکھ لی
دل یہ کہتا ہے کہ اب دیوانگی بن جائیے
وسعتوں میں لوگ کھو دیتے ہیں خود اپنا شعور
اپنی حد میں آئیے، اور آگہی بن جائیے
حُسنِ معنی کیوں رہے حرف و صدا کی قید میں
ماورائے گوش و لب اک اَن کہی بن جائیے
عالمِ کثرت نہاں ہے اس اکائی میں سلیمؔ
خود میں خود کو جمع  کیجیے اور کئی بن جائیے

سلیم احمد

No comments:

Post a Comment