Friday 12 December 2014

برداشت: میٹھے لہجے میں لپٹی ہوئی نفرتیں

برداشت

 میٹھے لہجے میں لپٹی ہوئی نفرتیں
اتفاقاً نہیں یوں تجھے ہیں ملی
 تجھ سے ناراض ہوتے ہیں سب لوگ کیوں
 ہے کوئی تو وجہ، کوئی تو ہے کمی
 تُو مہذّب ہے، کہتا ہے سب سے یہی
 اور برداشت کی تجھ میں عادت نہیں
 قول اور فعل میں تیرے کیوں ہے تضاد
 بے خبر ہو کے تُو جا رہا ہے کدھر
 زندگی اپنے انجام کو پہنچ کر
 کس ڈگر تجھ کو لے جائے گی سوچ لے
 کچھ تو احساس کر وقت کی سُن صدا
 پل جو بِیتا نہیں، لوٹ کر آئے گا
 دیکھ موقع ملا ہے غنیمت تجھے
 بوئے گا جو یہاں پَھل وہاں پائے گا
 تجھ کو منزل ملے گی کہے گی خیالؔ
 میں ہی تعبیر ہوں تیرے ہر خواب کی

اسماعیل اعجاز خیال

No comments:

Post a Comment