Friday 12 December 2014

وقت ہر دہلیز کا جلتا دیا گل کر گیا

وقت ہر دہلیز کا جلتا دِیا گُل کر گیا
دَم نکل کر آدمی کی قید سے باہر گیا
عشق کا دعویٰ بہت آسان ہے، لیکن سنو
جس نے دعویٰ عشق کا سچا کیا تو سَر گیا
سوچتا ہوں میں سفر اپنا ادھورا چھوڑ دوں
ایک مدت سے نہیں لوگو! میں اپنے گھر گیا
جمع ہو سکتے نہیں ہیں ایک دل میں خیر و شر
خیر کے آتے ہی دل سے دیکھ لینا شر گیا
آدمی اپنا مقدر اپنے ہاتھوں ہی لکھے
جو عمل جس نے کیا وہ ساتھ میں لے کر گیا
زندگی کی اونچی نیچی راہوں پر ہر آدمی
کا سفر پورا ہوا، منزل ملی، اور مر گیا
ایک عرصے سے مجھے اپنی رہی تھی جستجو
آج میں خود سے ملا تو دیکھتے ہی ڈر گیا
موت آئی ساتھ اپنے لے گئی تم کو خیالؔ
ہاتھ سے دنیا گئی دنیا کا مال و زر گیا

اسماعیل اعجاز خیال

No comments:

Post a Comment