Friday 12 December 2014

کبھی ہم کو رلا ڈالا کبھی ہم کو ہنسا ڈالا

کبھی ہم کو رُلا ڈالا، کبھی ہم کو ہنسا ڈالا
خوشی اور غم کا جیون کھیل ہے جس نے تھکا ڈالا
نہیں آئی نظر مجھ کو تمہارے نام کی ریکھا
تو اپنی اس ہتھیلی کی لکیروں کو جلا ڈالا
جلائی شمع الفت کی جو تھی ہر ایک کے دل میں
تعصّب کی ہوا نے آج ہے اس کو بُجھا ڈالا
تمہاری راہ میں پلکیں بچھائے کوئی بیٹھا تھا
محبت نے اسے پتّھر کی اک مُورت بنا ڈالا
وفا کا ایک پیکر ساتھ دینے سے گریزاں ہے
یہ دن بھی دیکھنے تھے، ہم کو قسمت نے رُلا ڈالا
کئے وعدے ادھورے رہ گئے، سب توڑ دیں قسمیں
جو ازبر عشق کے اسباق تھے، ان کو بھُلا ڈالا
تمہیں فرصت کہاں، اک بار ہم سے حال ہی پوچھو
مگر ہم نے تمہارے عشق میں خود کو مٹا ڈالا
گلے شکوے بہت ہونے لگے تھے آپ کو ہم سے
ہماری ہی نظر میں آپ نے ہم کو گرا ڈالا
کیا جس نے بھی دعویٰ عشق میں پورا اترنے کا
اسی کو عشق نے دیکھو ہے سُولی پر چڑھا ڈالا
خیالؔ! آؤ محبت کو کریں ہم عام دنیا میں
کہ نفرت نے ہمیں آپس میں ہے دشمن بنا ڈالا

اسماعیل اعجاز خیال

No comments:

Post a Comment