Saturday 6 December 2014

بن کے خوشبو جو بکھرو تو پھر بات ہے

بن کے خوشبو جو بکھرو تو پھر بات ہے
تم مری بات سمجھو تو پھر بات ہے
ساحلوں پر کھڑے مسکرانا بجا
گر سمندر سے گزرو تو پھر بات ہے
اس طرح چھپ کے آواز ہم کو نہ دو
سامنے آ کے بولو تو  پھر بات ہے
آئینے سے ملے گا نگاہوں کا عکس
میری نظروں سے دیکھو تو پھر بات ہے
سب میں بیٹھے ہوئے سوچنا کیا لگا
ہاں اکیلے میں سوچو تو پھر بات ہے
خالی حرفوں سے جذبے تراشو نہیں
کوئی ایک بات لکھو تو پھر بات ہے
پانیوں پر برسنے سے کیا فائدہ
دل کے صحرا میں برسو تو پھر بات ہے
بے ہنر ہاتھ صفدرؔ بڑی شے نہیں
بے اثر حرف چومو تو پھر بات ہے

صفدر ہمدانی

No comments:

Post a Comment