قرب کا زہر مِری روح میں زندہ ہے ابھی
چند دن اور مجھے تم نے تو سمجھا ہے ابھی
ان چمکتے ہوئے رستوں پہ بھی چل لیں گے مگر
راستہ چلتے ہوئے لوگوں کو دیکھا ہے ابھی
آئینہ ٹوٹ کے بکھرا تو خدا رونے لگا
چاندنی چہرے پہ احساس سجا کر نکلی
مجھ کو چہرے پہ لہو رکھ کے نکلنا ہے ابھی
گوشت کی آنکھ میں بینائی کا دھوکا تو نہ دے
یہ چمکتا ہوا پتھر بھی پگھلنا ہے ابھی
سِل گئے ہونٹ لرزتی ہوئی دیواروں کے
کل کا دن اور ترے شہر میں رہنا ہے ابھی
تم جسے کہتے ہو انساں کی مکمل صورت
وہ تو انسان کا ڈھلتا ہوا سایہ ہے ابھی
ڈوب نہ جاؤں میں آواز کی دنیا میں کہیں
جسم اس شور کی دنیا سے تو نکلا ہے ابھی
ہاتھ کو ہاتھ سجھائی نہیں دیتا صفدرؔ
کیا خبر شہر میں اب اور کیا ہونا ہے ابھی
صفدر ہمدانی
No comments:
Post a Comment