Tuesday 2 December 2014

کرتا ہے بیکار کی باتیں کام کی کوئی بات نہیں

کرتا ہے بے کار کی باتیں، کام  کی کوئی بات نہیں
غیروں جیسی بات ہے تیری، اپنوں جیسی بات نہیں
جام سبھی کے ہاتھوں میں ہے،  ہاتھ ہمارے خالی ہیں
ناانصافی ہونے دینا ساقی! اچھی بات نہیں
محفل میں جس کو بھی دیکھو روٹھا روٹھا لگتا ہے
کڑواہٹ ہے آوازوں میں، کوئی میٹھی بات نہیں
کلمہ تیرا، سپنا تیرا، فکر تِری اور تیرا خیال
صرف تِری ہی بات زباں پر اور کسی کی بات نہیں
کہنے کو تو کہہ دی تُو نے  اپنے دل کی ساری بات
سچائی ہے لیکن یہ کہ، یہ بھی ساری بات نہیں
کیسے ملیں ہم تم سے یارو! کیسے بلائیں گھر اپنے
غم ہی غم ہیں پاس ہمارے، کوئی خوشی کی بات نہیں
ناانصافی ہر جانب ہے، ہر سُو ظلمت ہی ظلمت
دیکھ کے یہ سب کیوں سب چپ ہیں کہتے حق کی بات نہیں
پہلے کیا کیا کچھ کہہ ڈالا، پھر یہ کہہ کر صاف گئے
کر ڈالی ہے بھول زباں نے، سوچی سمجھی بات نہیں
“تیرے لیے ہی جیتا ہوں اور تیرے لیے ہی مرتا ہوں”
منہ دیکھی جاویدؔ ہیں باتیں، دل سے نکلی بات نہیں

جاوید جمیل 

No comments:

Post a Comment