نہ ملا کبھی کسی سے اسے دیوتا سمجھ کر
بھلا کیسے پوجتا پھر میں اسے خدا سمجھ کر
میں یہ چاہتا ہوں مجھ سے وہ ملے تو دوست بن کے
نہ بڑا سمجھ کے خود کو، نہ مجھے بڑا سمجھ کر
کوئی ان کو یہ بتا دے مِرے منہ میں بھی زباں ہے
وہ ستم کریں گے کب تک مجھے بے نوا سمجھ کر
کئے فیصلے ہمیشہ ترے رخ کو دیکھ کر ہی
کبھی باوفا سمجھ کر، کبھی بے وفا سمجھ کر
تِرا غم اٹھا رہا ہوں، تِرا درد سہہ رہا ہوں
مِری بندگی سی الفت کی حسیں جزا سمجھ کر
مِرے عشق کو مقدر درجات دے رہا ہے
کبھی ابتدا سمجھ کر، کبھی انتہا سمجھ کر
کوئی حکم دوں اسے میں یہ نہیں مقام میرا
مِری بات کاش مانے مِری التجا سمجھ کر
بھلا کیسے پوجتا پھر میں اسے خدا سمجھ کر
میں یہ چاہتا ہوں مجھ سے وہ ملے تو دوست بن کے
نہ بڑا سمجھ کے خود کو، نہ مجھے بڑا سمجھ کر
کوئی ان کو یہ بتا دے مِرے منہ میں بھی زباں ہے
وہ ستم کریں گے کب تک مجھے بے نوا سمجھ کر
کئے فیصلے ہمیشہ ترے رخ کو دیکھ کر ہی
کبھی باوفا سمجھ کر، کبھی بے وفا سمجھ کر
تِرا غم اٹھا رہا ہوں، تِرا درد سہہ رہا ہوں
مِری بندگی سی الفت کی حسیں جزا سمجھ کر
مِرے عشق کو مقدر درجات دے رہا ہے
کبھی ابتدا سمجھ کر، کبھی انتہا سمجھ کر
کوئی حکم دوں اسے میں یہ نہیں مقام میرا
مِری بات کاش مانے مِری التجا سمجھ کر
جاوید جمیل
No comments:
Post a Comment