Tuesday, 2 December 2014

نہ ملا کبھی کسی سے اسے دیوتا سمجھ کر

نہ ملا کبھی کسی سے اسے دیوتا سمجھ کر
بھلا کیسے پوجتا پھر میں اسے خدا سمجھ کر
میں یہ چاہتا ہوں مجھ سے وہ ملے تو دوست بن کے
نہ بڑا سمجھ کے خود کو، نہ مجھے بڑا سمجھ کر
کوئی ان کو یہ بتا دے مِرے منہ میں بھی زباں ہے
وہ ستم کریں گے کب تک مجھے بے نوا سمجھ کر
کئے فیصلے ہمیشہ ترے رخ کو دیکھ کر ہی
کبھی باوفا سمجھ کر، کبھی بے وفا سمجھ کر
تِرا غم اٹھا رہا ہوں، تِرا درد سہہ رہا ہوں
مِری بندگی سی الفت کی حسیں جزا سمجھ کر
مِرے عشق کو مقدر درجات دے رہا ہے
کبھی ابتدا سمجھ کر، کبھی انتہا سمجھ کر
 کوئی حکم دوں اسے میں یہ نہیں مقام میرا
مِری بات کاش مانے مِری التجا سمجھ کر

جاوید جمیل 

No comments:

Post a Comment