کہیں بے کنار سے رتجگے، کہیں زرنگار سے خواب دے
تِرا کیا اصول ہے زندگی، مجھے کون اس کا حساب دے
جو بِچھا سکوں تِرے واسطے، جو سجا سکیں تِرے راستے
مِری دسترس میں ستارے رکھ، مِری مُٹھیوں کو گلاب دے
یہ جو خواہشوں کا پرند ہے، اسے موسموں سے غرض نہیں
یہ اڑے گا اپنی ہی موج میں، اسے آب دے کہ سراب دے
تجھے چُھو لیا تو بھڑک اٹھے مِرے جسم و جاں میں چراغ سے
اسی آگ میں مجھے راکھ کر، اسی شعلگی کو شباب دے
کبھی یوں بھی ہو ترے رو برو، میں نظر مِلا کے یہ کہہ سکوں
“مِری حسرتوں کو شمارکر، مِری خواہشوں کا حساب دے”
تِری اک نگاہ کے فیض سے، مِری کِشتِ حرف چمک اٹھے
مِرا لفظ لفظ ہو کہکشاں، مجھے ایک ایسی کتاب دے
تِرا کیا اصول ہے زندگی، مجھے کون اس کا حساب دے
جو بِچھا سکوں تِرے واسطے، جو سجا سکیں تِرے راستے
مِری دسترس میں ستارے رکھ، مِری مُٹھیوں کو گلاب دے
یہ جو خواہشوں کا پرند ہے، اسے موسموں سے غرض نہیں
یہ اڑے گا اپنی ہی موج میں، اسے آب دے کہ سراب دے
تجھے چُھو لیا تو بھڑک اٹھے مِرے جسم و جاں میں چراغ سے
اسی آگ میں مجھے راکھ کر، اسی شعلگی کو شباب دے
کبھی یوں بھی ہو ترے رو برو، میں نظر مِلا کے یہ کہہ سکوں
“مِری حسرتوں کو شمارکر، مِری خواہشوں کا حساب دے”
تِری اک نگاہ کے فیض سے، مِری کِشتِ حرف چمک اٹھے
مِرا لفظ لفظ ہو کہکشاں، مجھے ایک ایسی کتاب دے
امجد اسلام امجد
No comments:
Post a Comment