چاند ہاتھ میں بھر کر جگنوؤں کے سر کاٹو اور آگ پر رکھ دو
قافلہ پرندوں کا جب زمیں پہ گر جائے چاقوؤں کے سر رکھ دو
میں بھی اک شجر ہی ہوں جس پہ آج تک شاید پُھول پَھل نہیں آئے
تم مِری ہتیلی پر ایک رات چپکے سے برف کا ثمر رکھ دو
دھوپ کا ہرا بجرا آگ کے سمندر میں چل پڑا ہمیں لینے
چاہے کوئی موسم ہو دن گئی بہاروں کے پھر سے لوٹ آئیں گے
ایک پھول کی پتی اپنے ہونٹ پر رکھ کر میرے ہونٹ پر رکھ دو
میرا تن درختوں میں اس لیے جھلستا ہے سخت دھوپ سہتا ہے
کیا عجب تم آ نکلو اور میرے کاندھوں پر تھک کے اپنا سر رکھ دو
روز تار کٹنے سے رات کے سمندر میں شہر ڈوب جاتا ہے
اس لیے ضروری ہے اک دِیا جلا کر تم دل کے طاق پر رکھ دو
بشیر بدر
No comments:
Post a Comment