Wednesday 10 December 2014

چاند ہاتھ میں بھر کر جگنوؤں کے سر کاٹو اور آگ پر رکھ دو

چاند ہاتھ میں بھر کر جگنوؤں کے سر کاٹو اور آگ پر رکھ دو
قافلہ پرندوں کا جب زمیں پہ گر جائے چاقوؤں کے سر رکھ دو
میں بھی اک شجر ہی ہوں جس پہ آج تک شاید پُھول پَھل نہیں آئے
تم مِری ہتیلی پر ایک رات چپکے سے برف کا ثمر رکھ دو
دھوپ کا ہرا بجرا آگ کے سمندر میں چل پڑا ہمیں لینے
نرم و گرم ہونٹوں سے بند ہوتی تتلیوں کے پر رکھ دو
چاہے کوئی موسم ہو دن گئی بہاروں کے پھر سے لوٹ آئیں گے
ایک پھول کی پتی اپنے ہونٹ پر رکھ کر میرے ہونٹ پر رکھ دو
میرا تن درختوں میں اس لیے جھلستا ہے سخت دھوپ سہتا ہے
کیا عجب تم آ نکلو اور میرے کاندھوں پر تھک کے اپنا سر رکھ دو
روز تار کٹنے سے رات کے سمندر میں شہر ڈوب جاتا ہے
اس لیے ضروری ہے اک دِیا جلا کر تم دل کے طاق پر رکھ دو

بشیر بدر

No comments:

Post a Comment