Wednesday 10 December 2014

سورج بھی بندھا ہو گا دیکھ مرے بازو میں

سورج بھی بندھا ہو گا دیکھ مِرے بازُو میں
اس چاند کی بھی رکھنا سونے کے ترازُو میں
اب ہم سے شرافت کی امید نہ کر دنیا
پانی نہیں مل سکتا تپتی ہوئی بالُو میں
تاریک سمندر کے سینے میں گُہر ڈھونڈو
جگنو بھی چمکتے ہیں برسا ت کے آنسُو میں
سب دَیر و حرم چُھوٹے، دلدار و صنم جُھوٹے
ہم آ ہی گئے آخر، دنیا ترے جادُو میں
اِک ریت کا پردہ تھیں، آہن کی یہ دیواریں
انسان نہیں رہتا، انسان کے قابُو میں
خوابیدہ گلابوں پر یہ اوس بِچھی کیسے
احساس چمکتا ہے اسلُوب کی خُوشبُو میں

بشیر بدر

No comments:

Post a Comment