Saturday, 6 December 2014

شاید جگہ نصیب ہو اس گل کے ہار میں

شاید جگہ نصیب ہو اس گل کے ہار میں
میں پھول بن کے آؤں گا اب کی بہار میں
خلوت خیالِ یار سے ہے انتظار میں
آئیں فرشتے لے کے اجازت مزار میں
ہم کو تو جاگنا ہے تِرے انتظار میں
آئی ہو جس کو نیند وہ سوئے مزار میں
اے درد! دل کو چھیڑ کے پھر بار بار چھیڑ
ہے چھیڑ کا مزا خلشِ بار بار میں
ڈرتا ہوں یہ تڑپ کے لحد کو الٹ نہ دے
ہاتھوں سے دل دبائے ہوئے ہوں مزار میں
تم نے تو ہاتھ جور و ستم سے اٹھا لیا
اب کیا مزا رہا ستمِ روزگار میں
اے پردہ دار! اب تو نکل آ کہ حشر ہے
دنیا کھڑی ہوئی ہے تِرے انتظار میں
عمرِ دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں
سیمابؔ! پھول اگیں لحدِ عندلیب سے
اتنی تو تازگی ہو ہوائے بہار میں

سیماب اکبر آبادی

مندرجہ بالا غزل وہ ہے جو شائع شدہ شکل میں ہے، اس کے علاوہ  مزید اشعار بھی موجود ہیں جو غزل میں شامل نہیں کئے
گئے، جو اشعار اس غزل نہیں کئے گئے ان کو بھی الگ سے شائع شدہ اشعار کے ساتھ پیش کرنے کی جسارت کر رہا ہوں۔

شاید جگہ نصیب ہو اس گل کے ہار میں
میں پھول بن کے آؤں گا اب کی بہار میں
کفنائے باغباں مجھے پھولوں کے ہار میں
کچھ تو ہرا ہو دل مرا اب کی بہار میں
گندھوا کے دل کو لائے ہیں پھولوں کے ہار میں
یہ ہار ان کو نذر کریں گے بہار میں
نچلا رہا نہ سوزِ دروں انتظار میں
اس آگ نے سرنگ لگا دی مزار میں
خلوت خیالِ یار سے ہے انتظار میں
آئیں فرشتے لے کے اجازت مزار میں
ہم کو تو جاگنا ہے ترے انتظار میں
آئی ہو جس کو نیند وہ سوئے مزار میں
میں دل کی قدر کیوں نہ کروں ہجر یار میں
ان کی سی شوخیاں ہیں اسی بے قرار میں
سیمابؔ ہے تڑپ سی تڑپ ہجرِ یار میں
کیا بجلیاں بھری ہیں دل بے قرار میں
تھی تابِ حسن شوخئ تصویرِ یار میں
بجلی چمک گئی نظر بے قرار میں
بادل کی یہ گرج نہیں ابرِ بہار میں
برا رہا ہے کوئی شرابی خمار میں
عمرِ دراز مانگ کے لائی تھی چار دن
دو آرزو میں کٹ گئے، دو انتظار میں
تنہا مرے ستانے کو رہ جائے کیوں زمیں
اے آسمان! تُو بھی اتر آ مزار میں
خود حسن، ناخدائے محبت، خدائے دل
کیا کیا لئے ہیں میں نے ترے نام پیار میں
مجھ کو مٹا گئی روشِ شرمگیں تری
میں جذب ہو گیا نگہِ شرمسار میں
اللہ رے، شامِ غم، مری بے اختیاریاں
اک دل ہے پاس وہ بھی نہیں اختیار میں
اے اشک گرم! ماند نہ پڑ جائے روشنی
پھر تیل ہو چکا ہے دلِ داغدار میں
یہ معجزہ ہے وحشتِ عریاں پسند کا
میں کوئے یار میں ہوں، کفن ہے مزار میں
اے درد! دل کو چھیڑ کے پھر بار بار چھیڑ
ہے چھیڑ کا مزا خلشِ بار بار میں
افراطِ معصیت سے فضیلت ملی مجھے
میں ہوں گناہگاروں کی پہلی قطار میں
ڈرتا ہوں یہ تڑپ کے لحد کو الٹ نہ دے
ہاتھوں سے دل دبائے ہوئے ہوں مزار میں
تم نے تو ہاتھ جور و ستم سے اٹھا لیا
اب کیا مزا رہا ستمِ روزگار میں
کیا جانے رحمتوں نے لیا کس طرح حساب
دو چار بھی گناہ نہ نکلے شمار میں
او پردہ دار! اب تو نکل آ کہ حشر ہے
دنیا کھڑی ہوئی ہے ترے انتظارمیں
روئی ہے ساری رات اندھیر ے میں بیکسی
آنسو بھرے ہوئے ہیں چراغِ مزار میں
سیمابؔ! پھول اگیں لحدِ عندلیب سے
اتنی تو زندگی ہو ہوائے بہار میں

سیماب اکبر آبادی

No comments:

Post a Comment