Saturday 6 December 2014

نامہ گیا کوئی نہ کوئی نامہ بر گیا

نامہ گیا کوئی، نہ کوئی نامہ بر گیا
تیری خبر نہ آئی، زمانہ گزر گیا
جنت بھی خوب بھر گئی، دوزخ بھی بھر گیا
جوشِ جنوں بتائے مجھے، میں کدھر گیا
ہنستا ہوں یوں کہ ہجر کی راتیں گزر گئیں
روتا ہوں یوں کہ لطفِ دعائے سحر گیا
شیرازہ بندئ دلِ صد چاک ہو چکی
میں تو وہ ہار ہوں، جو گُندھا اور بِکھر گیا
جی سے غمِ جہاں ہے، سن اے زندگی پرست
جی سے گزر گیا، تو جہاں سے گزر گیا
اب مجھ کو ہے قرار، تو سب کو قرار ہے
دل کیا ٹھہر گیا، کہ زمانہ ٹھہر گیا
تجھ سے شبابِ رفتہ، میں اب کیا گِلہ کروں
کم بخت! خود لٹا، مجھے برباد کر گیا
میں ننگِ کائنات، کہ مجھ سے ملا نہ تُو
تُو نازشِ حیات، کہ میں تجھ پہ مر گیا
سیمابؔ اب تو عمر کے دن کر رہا ہوں تیر
تھی جس میں زندگی، وہ زمانہ گزر گیا 

سیماب اکبر آبادی 

No comments:

Post a Comment