Saturday 6 December 2014

محبت میں جو رنجش ہو رہی ہے

محبت میں جو رنجش ہو رہی ہے
عجب مجھ پہ نوازش ہو رہی ہے
مِرے باہر ہوا کا شور ہے، اور
مِرے اندر بھی بارش ہو رہی ہے
میں کس کے آسماں میں اُڑ رہا ہوں
مجھے یہ کس کی خواہش ہو رہی ہے
قبا، اہلِ سیاست میں ہے شامل
خلافِ عقل سازش ہو رہی ہے
میں ترکِ عشق کر لوں اس سے، لیکن
مگر جو خود سے پُرسش ہو رہی ہے
محبت ہی مِرا مسلک ہے صفدرؔ
محبت کی نوازش ہو رہی ہے

صفدر ہمدانی

No comments:

Post a Comment