محبت میں جو رنجش ہو رہی ہے
عجب مجھ پہ نوازش ہو رہی ہے
مِرے باہر ہوا کا شور ہے، اور
مِرے اندر بھی بارش ہو رہی ہے
میں کس کے آسماں میں اُڑ رہا ہوں
قبا، اہلِ سیاست میں ہے شامل
خلافِ عقل سازش ہو رہی ہے
میں ترکِ عشق کر لوں اس سے، لیکن
مگر جو خود سے پُرسش ہو رہی ہے
محبت ہی مِرا مسلک ہے صفدرؔ
محبت کی نوازش ہو رہی ہے
صفدر ہمدانی
No comments:
Post a Comment