Saturday 6 December 2014

آنسوؤں میں لہو نتھارا ہے

آنسوؤں میں لہو نتھارا ہے
کیسے خطرے کا یہ اشارہ ہے
کس قدر قہر کی ہے تنہائی
میں نے اپنے کو خود پکارا ہے
عہدِ نو میں سخن طرازوں نے
خود لباسِ سخن اتارا ہے

ساتھ رہ کر بھی ساتھ رہنا نہیں
طے ہوا فیصلہ ہمارا ہے
منفعت موت میں ہی ہو شاید
زندگی تو فقط خسارہ ہے
میں بھی دریا کا اک کنارا ہوں
تُو بھی دریا کا اک کنارا ہے
میں نے کب زندگی گزاری ہے
زندگی نے مجھے گزارا ہے
زد میں ہے جو شہابِ ثاقب کی
اپنی قسمت کا وہ ستارہ ہے
دشمنوں کی تھی کب مجھے پروا
دوست کی دشمنی نے مارا ہے
کون تھا جو شکست دیتا اسے
بھائی صفدرؔ تو خود سے ہارا ہے

صفدر ہمدانی

No comments:

Post a Comment