آنسوؤں میں لہو نتھارا ہے
کیسے خطرے کا یہ اشارہ ہے
کس قدر قہر کی ہے تنہائی
میں نے اپنے کو خود پکارا ہے
عہدِ نو میں سخن طرازوں نے
خود لباسِ سخن اتارا ہے
ساتھ رہ کر بھی ساتھ رہنا نہیں
طے ہوا فیصلہ ہمارا ہے
منفعت موت میں ہی ہو شاید
زندگی تو فقط خسارہ ہے
میں بھی دریا کا اک کنارا ہوں
تُو بھی دریا کا اک کنارا ہے
میں نے کب زندگی گزاری ہے
زندگی نے مجھے گزارا ہے
زد میں ہے جو شہابِ ثاقب کی
اپنی قسمت کا وہ ستارہ ہے
دشمنوں کی تھی کب مجھے پروا
دوست کی دشمنی نے مارا ہے
کون تھا جو شکست دیتا اسے
بھائی صفدرؔ تو خود سے ہارا ہے
کیسے خطرے کا یہ اشارہ ہے
کس قدر قہر کی ہے تنہائی
میں نے اپنے کو خود پکارا ہے
عہدِ نو میں سخن طرازوں نے
خود لباسِ سخن اتارا ہے
ساتھ رہ کر بھی ساتھ رہنا نہیں
طے ہوا فیصلہ ہمارا ہے
منفعت موت میں ہی ہو شاید
زندگی تو فقط خسارہ ہے
میں بھی دریا کا اک کنارا ہوں
تُو بھی دریا کا اک کنارا ہے
میں نے کب زندگی گزاری ہے
زندگی نے مجھے گزارا ہے
زد میں ہے جو شہابِ ثاقب کی
اپنی قسمت کا وہ ستارہ ہے
دشمنوں کی تھی کب مجھے پروا
دوست کی دشمنی نے مارا ہے
کون تھا جو شکست دیتا اسے
بھائی صفدرؔ تو خود سے ہارا ہے
صفدر ہمدانی
No comments:
Post a Comment