Saturday 6 December 2014

چھاؤں کی ہے طلب تو مثال شجر رہو

چھاؤں کی ہے طلب تو مثالِ شجر رہو
رہنے کا ڈھنگ یہ کہ رہو نہ، مگر رہو
تم بھی کھلی ہواؤں میں پرواز سیکھ لو
کس نے کہا ہے تم سے کہ بے بال و پر رہو
ترکِ تعلقات سے بہتر ہے یوں کریں
میں اپنے گھر میں رہتا ہوں تم اپنے گھر رہو
میری دعا ہے تیرے لیے، میرے ہمنفس
تم بھی مری طرح سے یونہی دربدر رہو
اس عہدِ بے بصر کی ضرورت ہنر نہیں
عزت جو چاہتے ہو تو پھر بے ہنر رہو
خبروں پہ تبصرے کا یہی ایک راز ہے
حالات و واقعات سے تم بے خبر رہو
صفدرؔ بچاؤ کی یہی صورت نظر میں ہے
اس دشتِ نارسا میں بھی محوِ سفر رہو

صفدر ہمدانی

No comments:

Post a Comment