نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی
گماں گماں سی مہک خود کو ڈھونڈتی ہی رہی
عجب طرح رُخِ آئندگی کا رنگ اُڑھا
دیارِ ذات میں از خود گزشتگی ہی رہی
حریم شوق کا عالم بتائیں کیا تم کو
پاسِ نگاہِ تغافل تھی اک نگاہ کہ رہی تھی
جو دل کے چہرۂ حسرت کی تازگی ہی رہی
بدل گیا سب ہی کچھ اس دیارِ بُودش میں
گلی تھی جو مِری جان! وہ تری گلی ہی رہی
تمام دل کے محلے اجڑ چکے تھے، مگر
بہت دنوں تو ہنسی ہی رہی، خوشی ہی رہی
وہ داستان تمہیں اب بھی یاد ہے کہ نہیں
جو خون تھوکنے والوں کی بے حسی ہی رہی
سناؤں میں کسے افسانۂ خیالِ ملال
تری کمی ہی رہی اور مری کمی ہی رہی
جون ایلیا
No comments:
Post a Comment