Wednesday 10 December 2014

نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی

نہ ہم رہے نہ وہ خوابوں کی زندگی ہی رہی
گماں گماں سی مہک خود کو ڈھونڈتی ہی رہی
عجب طرح رُخِ آئندگی کا رنگ اُڑھا
دیارِ ذات میں از خود گزشتگی ہی رہی
حریم شوق کا عالم بتائیں کیا تم کو
حریمِ شوق میں بس شوق کی کمی ہی رہی
پاسِ نگاہِ تغافل تھی اک نگاہ کہ رہی تھی
جو دل کے چہرۂ حسرت کی تازگی ہی رہی
بدل گیا سب ہی کچھ اس دیارِ بُودش میں
گلی تھی جو مِری جان! وہ تری گلی ہی رہی
تمام دل کے محلے اجڑ چکے تھے، مگر
بہت دنوں تو ہنسی ہی رہی، خوشی ہی رہی
وہ داستان تمہیں اب بھی یاد ہے کہ نہیں
جو خون تھوکنے والوں کی بے حسی ہی رہی
سناؤں میں کسے افسانۂ خیالِ ملال
تری کمی ہی رہی اور مری کمی ہی رہی

جون ایلیا

No comments:

Post a Comment