Wednesday 10 December 2014

کیا جانیے ہر آن بدلتی ہوئی دنیا

کیا جانیے ہر آن بدلتی ہوئی دنیا
کب دل سے کوئی نقش مٹانے چلی آئے
در کھول کے اک تازہ تحیّر کی خبر کا
چپکے سے کسی غم کے بہانے چلی آئے
کہتے ہیں کہ اب بھی تری پھیلی ہوئی باہیں
اک گوشۂ تنہائی میں سِمٹی ہوئیں اب تک
زنجیرِ مہ و سال میں لِپٹی ہوئیں اب تک

اب اور کسی چشم پہ وَا تک نہیں ہوتیں
خود اپنے ہی عالم سے جدا تک نہیں ہوتیں
سنتے ہیں کہ اب بھی ترے آنچل کی ہوا سے
الجھا ہوا رہتا ہے کسی یاد کا دامن
اب بھی تری آنکھوں سے غبارِ مہ و انجم
اڑتا ہے کہیں ابرِ گریزاں کی طلب میں
اب بھی ترے ہونٹوں پہ محبت کا الاؤ
جلتا ہے پئے لمس کہیں حجلۂ شب میں
وہ دن بھی عجب تھے کہ کسی لہر میں سب سے
کہتے ہوئے پھرتے تھے اسی شہر میں سب سے
صحرا بھی ہمارا ہے تو جل تھل بھی ہمارا
اس آنکھ میں پھیلا ہوا کاجل بھی ہمارا
شانوں پہ مہکتی ہوئی وہ زلف ہماری
اور اس سے ڈھلکتا ہوا آنچل بھی ہمارا
یہ دن بھی عجب ہیں کہ رگ و پے میں شب و روز
پھیلا ہوا اِک تازہ تغیّر کا فسُوں ہے
اب بھی اسی پابندئ آئین جنُوں میں
اپنا سرِ بازار وہی رقصِ جنُوں ہے
گزرا ہوا لمحہ بھی ہم آغوش تھا ہم سے
یہ پَل جو گزرنے کو ہے، یہ پَل بھی ہمارا
ہم آج کے بارے ہی میں خوش فہم نہیں ہیں
جو تجھ کو یقیں آئے تو ہے کل بھی ہمارا
وحشت وہی، رشتہ بھی وہی دربدری سے
آوارۂ شب روٹھ گئے تیری گلی سے

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment