Friday 12 December 2014

چھاؤں محبت اک شجر ہے

چھاؤں

تمہیں کیسے بتائیں ہم
محبت اور کہانی میں کوئی رشتہ نہیں ہوتا
کہانی میں
تو ہم واپس بھی آتے ہیں
محبت میں پلٹنے کا کوئی رستہ نہیں ہوتا
ذرا سوچو
کہیں دل میں خراشیں ڈالتی یادوں کی سفاکی
کہیں دامن سے لپٹی ہے کسی بھولی ہوئی
ساعت کی نم ناکی
کہیں آنکھوں کے خیموں میں
چراغِ خواب گل کرنے کی سازش کو
ہوا دیتی ہوئی راتوں کی چالاکی
مگر میں بندۂ خاکی
نہ جانے کتنے فرعونوں سے الجھی ہے
مِرے لہجے کی بے باکی
مجھے دیکھو
مِرے چہرے پہ کتنے موسوں کی گرد
اور اس گرد کی تِہ میں
سمے کی دھوپ میں رکھا اک آئینہ
اور آئینے میں تا حدِ نظر پھیلے
محبت کے ستارے عکس بن کر جھِلملاتے ہیں
نئی دنیاؤں کا رستہ بتاتے ہیں
اسی منظر میں آئینے سے الجھی کچھ لکیریں ہیں
لکیروں میں کہانی ہے
کہانی اور محبت میں ازل سے جنگ جاری ہے
محبت میں اک ایسا موڑ آتا ہے
جہاں آ کر کہانی ہار جاتی ہے
کہانی میں کچھ کردار ہم خود فرض کرتے ہیں
محبت میں کوئی کردار بھی فرضی نہیں ہوتا
کہانی میں کئی کردار
زندہ ہی نہیں رہتے
محبت اپنے کرداروں کو مرنے ہی نہیں دیتی
کہانی کے سفر میں
منظروں کی دھول اڑتی ہے
محبت کی مسافر راہگیروں کو بکھرنے ہی نہیں دیتی
محبت اک شجر ہے
اور شجر کو اس سے کیا مطلب
کہ اس کے سائے میں جو بھی تھکا ہارا مسافر آ کے بیٹھا ہے
اب اس کی نسل کیا ہے، رنگ کیسا ہے
کہاں سے آیا ہے
کس سمت جانا ہے
شجر کا کام تو بس چھاؤں دینا ہے
دھوپ سہنا ہے
اسے اس سے غرض کیا ہے
پڑاؤ ڈالنے والوں میں کس نے
چھاؤں کی تقسیم کا جھگڑا اٹھا یا ہے
کہاں، کس عہد کو توڑا، کہاں وعدہ نبھایا ہے
مگر ہم جانتے ہیں
چھاؤں جب تقسیم ہو جائے
تو اکثر دھوپ کے نیزے
رگ و پے میں اترتے ہیں
اور اس کے زخم خوردہ لوگ
جیتے ہیں نہ مرتے ہیں

سلیم کوثر

No comments:

Post a Comment