Thursday 4 December 2014

رستہ ہی نیا ہے نہ میں انجان بہت ہوں

رستہ ہی نیا ہے، نہ میں انجان بہت ہوں
پھر کُوئے ملامت میں ہوں، نادان بہت ہوں
اک عمر جسے خواب کی مانند ہی دیکھا
چھونے کو ملا ہے، تو پریشان بہت ہوں
مجھ میں کبھی آہٹ کی طرح سے کوئی آئے
اک بند گلی کی طرح، سنسان بہت ہوں
دیکھا ہے گریز، اس نگہِ سرد کا اتنا
مائل بہ توجہ ہے، تو حیران بہت ہوں
الجھیں گے کئی بار ابھی لفظ سے مفہوم
سادہ ہے بہت وہ، نہ میں آسان بہت ہوں

پروین شاکر 

No comments:

Post a Comment