Thursday 4 December 2014

دیکھنے کا جسے کل رات میں ڈھنگ اور ہی تھا

دیکھنے کا جسے کل رات میں ڈھنگ اور ہی تھا
صبح جب آئی، تو اس چشم کا رنگ اور ہی تھا
شیشۂ جاں کو مِرے اتنی نِدامت سے نہ دیکھ
جس سے ٹوٹا ہے یہ آئینہ، وہ سنگ اور ہی تھا
خلق کی بھیجی ہوئی ساری ملامت، اک سمت
اس کے لہجے میں چھپا تیر و تفنگ اور ہی تھا
کیا غرض اس سے، کہ کس گوشۂ عزلت میں رہا
شمع کے آگے جب آیا، تو پتنگ اور ہی تھا
لو چراغوں کی بجھانے سے، ذرا سا پہلے
میرے سردار کا، اندازۂ جنگ اور ہی تھا 

پروین شاکر

No comments:

Post a Comment