Thursday 4 December 2014

روز اک منظر شب طلب کرتی ہے

روز اک منظر شب طلب کرتی ہے
میری بے خوابی کوئی خواب طلب کرتی ہے
کچھ تو مجبورئ حالات بھی ہوتی ہو گی
ورنہ، کشتی کبھی گرداب طلب کرتی ہے
پہلے تو توڑ دیا، میری انا نے مجھ کو
اور اب مجھ سے وہی تاب طلب کرتی ہے
زد پہ آ جائیں تو وحشت کا بھروسا کیا ہے
کبھی صحراؤں میں سیلاب طلب کرتی ہے
اب اسے میں کیسے سمجھاؤں مِری سادہ دلی
آج کے دور میں احباب طلب کرتی ہے
شادؔ! اب اتنے مناظر کہاں سے لاؤں
زندگی روز نئے خواب طلب کرتی ہے

خوشبیر سنگھ شاد

No comments:

Post a Comment