روز اک منظر شب طلب کرتی ہے
میری بے خوابی کوئی خواب طلب کرتی ہے
کچھ تو مجبورئ حالات بھی ہوتی ہو گی
ورنہ، کشتی کبھی گرداب طلب کرتی ہے
پہلے تو توڑ دیا، میری انا نے مجھ کو
اور اب مجھ سے وہی تاب طلب کرتی ہے
زد پہ آ جائیں تو وحشت کا بھروسا کیا ہے
کبھی صحراؤں میں سیلاب طلب کرتی ہے
اب اسے میں کیسے سمجھاؤں مِری سادہ دلی
آج کے دور میں احباب طلب کرتی ہے
شادؔ! اب اتنے مناظر کہاں سے لاؤں
زندگی روز نئے خواب طلب کرتی ہے
میری بے خوابی کوئی خواب طلب کرتی ہے
کچھ تو مجبورئ حالات بھی ہوتی ہو گی
ورنہ، کشتی کبھی گرداب طلب کرتی ہے
پہلے تو توڑ دیا، میری انا نے مجھ کو
اور اب مجھ سے وہی تاب طلب کرتی ہے
زد پہ آ جائیں تو وحشت کا بھروسا کیا ہے
کبھی صحراؤں میں سیلاب طلب کرتی ہے
اب اسے میں کیسے سمجھاؤں مِری سادہ دلی
آج کے دور میں احباب طلب کرتی ہے
شادؔ! اب اتنے مناظر کہاں سے لاؤں
زندگی روز نئے خواب طلب کرتی ہے
خوشبیر سنگھ شاد
No comments:
Post a Comment