Thursday 4 December 2014

ان کی کسی ادا پہ جفا کا گماں نہیں

ان کی کسی ادا پہ جفا کا گماں نہیں
شوخی ہے جو بسلسلۂ امتحاں نہیں
دیکھا نہیں وہ جلوہ جو دیکھا ہوا سا ہے
اس طرح وہ عیاں ہیں کہ گویا عیاں نہیں
نامہربانیوں کا گِلہ تم سے کیا کریں
ہم بھی کچھ اپنے حال پہ اب مہرباں نہیں
اب تک لگاوٹیں ہی سہی، لاگ تو نہیں
یہ کیا ہوا، کہ مجھ سے وہ اب بدگماں نہیں
بربادِ صد بہار ہوں، میری نگاہ میں
جو آشنائے برق نہیں، آشیاں نہیں
ساری ہے دردِ دل مِری رگ رگ میں چارہ ساز
کیا پوچھتا ہے درد کہاں ہے، کہاں نہیں
کل تک زبانِ خلق پہ ہو گی وہ داستاں
اب تک مِری زبان پہ، جو داستاں نہیں
تیرا کرم کہ تُو نے، وہ دل کو عطا کیا
جو غم، بقدرِ حوصلۂ آسماں نہیں
بجلی کہیں گری ہو، مگر ہم قفس مجھے
ڈر ہے کہ اب کسی نے کہا، آشیاں نہیں
فانیؔ، کوئی غم اور اٹھائے ہوئے ہے کیا
دل پر ہنوز، بارِ محبت گراں نہیں

فانی بدایونی

No comments:

Post a Comment