ان کی کسی ادا پہ جفا کا گماں نہیں
شوخی ہے جو بسلسلۂ امتحاں نہیں
دیکھا نہیں وہ جلوہ جو دیکھا ہوا سا ہے
اس طرح وہ عیاں ہیں کہ گویا عیاں نہیں
نامہربانیوں کا گِلہ تم سے کیا کریں
ہم بھی کچھ اپنے حال پہ اب مہرباں نہیں
اب تک لگاوٹیں ہی سہی، لاگ تو نہیں
یہ کیا ہوا، کہ مجھ سے وہ اب بدگماں نہیں
بربادِ صد بہار ہوں، میری نگاہ میں
جو آشنائے برق نہیں، آشیاں نہیں
ساری ہے دردِ دل مِری رگ رگ میں چارہ ساز
کیا پوچھتا ہے درد کہاں ہے، کہاں نہیں
کل تک زبانِ خلق پہ ہو گی وہ داستاں
اب تک مِری زبان پہ، جو داستاں نہیں
تیرا کرم کہ تُو نے، وہ دل کو عطا کیا
جو غم، بقدرِ حوصلۂ آسماں نہیں
بجلی کہیں گری ہو، مگر ہم قفس مجھے
ڈر ہے کہ اب کسی نے کہا، آشیاں نہیں
فانیؔ، کوئی غم اور اٹھائے ہوئے ہے کیا
دل پر ہنوز، بارِ محبت گراں نہیں
شوخی ہے جو بسلسلۂ امتحاں نہیں
دیکھا نہیں وہ جلوہ جو دیکھا ہوا سا ہے
اس طرح وہ عیاں ہیں کہ گویا عیاں نہیں
نامہربانیوں کا گِلہ تم سے کیا کریں
ہم بھی کچھ اپنے حال پہ اب مہرباں نہیں
اب تک لگاوٹیں ہی سہی، لاگ تو نہیں
یہ کیا ہوا، کہ مجھ سے وہ اب بدگماں نہیں
بربادِ صد بہار ہوں، میری نگاہ میں
جو آشنائے برق نہیں، آشیاں نہیں
ساری ہے دردِ دل مِری رگ رگ میں چارہ ساز
کیا پوچھتا ہے درد کہاں ہے، کہاں نہیں
کل تک زبانِ خلق پہ ہو گی وہ داستاں
اب تک مِری زبان پہ، جو داستاں نہیں
تیرا کرم کہ تُو نے، وہ دل کو عطا کیا
جو غم، بقدرِ حوصلۂ آسماں نہیں
بجلی کہیں گری ہو، مگر ہم قفس مجھے
ڈر ہے کہ اب کسی نے کہا، آشیاں نہیں
فانیؔ، کوئی غم اور اٹھائے ہوئے ہے کیا
دل پر ہنوز، بارِ محبت گراں نہیں
فانی بدایونی
No comments:
Post a Comment