Tuesday, 9 December 2014

تیرے سود و زیاں کےٹھیلوں سے

تیرے سود و زیاں کےٹھیلوں سے
ہم کو کیا کام ان رکھیلوں سے
عشق میں جیت ہر اناڑی کی
عقل ڈرتی ہے ایسے کھیلوں سے
سوکھ کر ہو گیا ہوں کانٹا سا
تیری یادوں کی زرد بیلوں سے
سانس آتی ہے ایسے رک رک کر
جیسے قیدی کی چیخ جیلوں سے
میرا مسکن ہے، میری تنہائی
دور ہوں زندگی کے مَیلوں سے
ہم کو آنے لگا ہے لطف امرؔ
کھیلتے کھیلتے جھمیلوں سے

امر روحانی

No comments:

Post a Comment