Tuesday, 9 December 2014

زلفوں میں اڑانیں بھونروں کی چہرے پر نور کا تڑکا ہے

زلفوں میں اڑانیں بھونروں کی، چہرے پر نور کا تڑکا ہے
کس شان کی ظلمت چھائی ہے، کس قہر کا شعلہ بھڑکا ہے
جب برق گِری تھی آنکھوں پر، اب قلب و جگر کی خیر نہیں
ہاتھوں میں سنہرا تیر لئے پھر تاک میں اندھا لڑکا ہے
میں ساتھ تمہارا دوں لیکن، اے ہمسفرو، اے راہزنو
تم چھوڑ نہ جاؤ رَستے میں اس بات کا مجھ کو دھڑکا ہے
دیکھا تو خوشی کے پھول کِھلے، سوچا تو غموں کی دھول اڑی
کہتے ہیں بہاراں لوگ جسے، وہ اک سایہ پت جھڑ کا ہے
اے دوست! ہماری ٹھوکر سے ہر منزل کی توہین ہوئی
پر تیری گلی سے جب گزرے، دل مچلا ہے، جی پھڑکا ہے

قتیل شفائی

No comments:

Post a Comment