Thursday 4 December 2014

یہ شکل ہو ہی نہیں سکتی شادمانی کی

یہ شکل ہو ہی نہیں سکتی شادمانی کی
اٹھا کے حلف بھی، تم غلط بیانی کی
یہ کام جب نہ ہوا، لڑکھڑاتے لفظوں سے
تو دل کے حال کی اشکوں نے ترجمانی کی
یہیں پہ رک جا سمندر! میں تیرا ساحل ہوں
یہیں تلک ہیں حدیں تیری بے کرانی کی
سفر شروع کیا تھا تو کب یہ سوچا تھا
یہ انتہا بھی کبھی ہو گی اس کہانی کی
وہ بھیجتا رہا خاموشیوں کے خط ہم کو
سمجھ سکے نہ زباں ہم ہی بے زبانی کی
کہو کہ مجھ سے یہ سیلاب اشک لے جائے
کمی ندی کو، اگر پڑ گئی ہو پانی کی
عجیب حبس کا موسم تھا شادؔ آنکھوں میں
کسی کی دید نے رنگت ذرا سہانی کی 

خوشبیر سنگھ شاد 

No comments:

Post a Comment