Thursday 4 December 2014

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں نہ کسی کے دل کا قرار ہوں

نہ کسی کی آنکھ کا نور ہوں، نہ کسی کے دل کا قرار ہوں
جو کسی کے کام نہ آ سکے، میں وہ ایک مُشتِ غبار ہوں
نہ دوائے دردِ جگر ہوں میں نہ کسی کی میٹھی نظر ہوں میں
نہ اِدھر ہوں میں نہ اُدھر ہوں میں نہ شکیب ہوں نہ قرار ہوں
مِرا رنگ روپ بگڑ گیا، مِرا بخت مجھ سے بچھڑ گیا
جو چمن خزاں سے اجڑ گیا، میں اسی کی فصل بہار ہوں
پئے فاتحہ کوئی آئے کیوں، کوئی چار پھول چڑھائے کیوں
کوئی شمع لا کے جلائے کیوں، کہ میں بے کسی کا مزار ہوں
میں نہیں ہوں نغمۂ جاں فزا، مجھے آپ سن کے کریں گے کیا
میں بڑے بروگ کی ہوں صدا، میں بڑے دکھی کی پکار ہوں
نہ میں مضطرؔ ان کا حبیب ہوں، نہ میں مضطرؔ ان کا رقیب ہوں
جو پلٹ گیا وہ نصیب ہوں، جو اجڑ گیا وہ دیار ہوں

مضطر خیر آبادی

No comments:

Post a Comment