دل کا معاملہ جو سپردِ نظر ہُوا
دشوار سے یہ مرحلہ دشوار تر ہوا
ابھرا، ہر اک خیال کی تہ سے تِرا خیال
دھوکا تِری صدا کا، ہر آواز پر ہوا
راہوں میں ایک ساتھ یہ کیوں جل اٹھے چراغ
سمٹی تو اور پھیل گئی دل میں موجِ درد
پھیلا، تو اور دامنِ غم مختصر ہوا
لہرا کے تیری زلف بنی اک حسین شام
کھل کر تِرے لبوں کا تبسم سحر ہوا
پہلی نظر کی بات تھی پہلی نظر کے ساتھ
پھر ایسا اتفاق کہاں عمر بھر ہوا
دل میں جراحتوں کے چمن لہلہا اٹھے
مضطؔر جب اس کے شہر سے اپنا گزر ہوا
مضطر خیر آبادی
No comments:
Post a Comment