Thursday 4 December 2014

یہ شام کتنی حسین ہے مگر اداس ہے دل

یہ شام کتنی حسین ہے، مگر اداس ہے دل
کوئی سبب بھی نہیں، مگر اداس ہے دل
بہت دنوں پہ میں اپنے گاؤں آیا ہوں
سنا ہے وہ بھی یہیں ہے، مگر اداس ہے دل
پھر اس مکان کی کھڑکی میں چاند اگتا ہے
پھر اس میں کوئی مکیں ہے، مگر اداس ہے دل
یہ کانپتے ہوئے ہونٹوں کا لمس، یہ خوشبو
وہ آج کتنا قریں ہے، مگر اداس ہے دل
یہ گونجتی ہوئی وادی، یہ نقرئی آواز
یہیں پہ وہ بھی کہیں ہے، مگر اداس ہے دل
بس اک نگاہ جسے دیکھنے کی حسرت تھی
وہ آج پہلو نشیں ہے، مگر اداس ہے دل
یہ غم کی شب بھی ڈھلے گی، سحر بھی آئے گی
ہر ایک شے پہ یقیں ہے، مگر اداس ہے دل
بہت ہی ڈوب کہ کہتا ہوں یہ غزل مضطرؔ
بڑی شگفتہ زمیں ہے، مگر اداس ہے دل

مضطر خیر آبادی

No comments:

Post a Comment