Monday 8 December 2014

میرے ہونے سے نہ ہونے کی خبر آتی ہے

میرے ہونے سے نہ ہونے کی خبر آتی ہے
ہر نوا لوٹ کے با دیدۂ تر آتی ہے
شعلگی، دستِ کرم اب کے گلوں کا ٹھہری
ہر کلی قصۂ بے داد نظر آتی ہے
خاک میں خاک یہاں رختِ سفر باندھوں گا
ریگِ صحرا ہے اڑی، اور اِدھر آتی ہے
گھٹنیوں چلتی ہوئی ایک خوشی ہے رقصاں
مجھ کو بھاتی تو نہیں، آئے اگر آتی ہے
قمقمے دیکھ کے اوہام کے ہر سُو روشن
تیرگی دوڑ کے ادراک میں در آتی ہے
ثبت ہے لب پہ ترے ، مہرِ خموشی اب تک
خامشی کی بھی زباں ہم کو مگر آتی ہے

ذوالفقار نقوی

No comments:

Post a Comment