میرے ہونے سے نہ ہونے کی خبر آتی ہے
ہر نوا لوٹ کے با دیدۂ تر آتی ہے
شعلگی، دستِ کرم اب کے گلوں کا ٹھہری
ہر کلی قصۂ بے داد نظر آتی ہے
خاک میں خاک یہاں رختِ سفر باندھوں گا
ریگِ صحرا ہے اڑی، اور اِدھر آتی ہے
گھٹنیوں چلتی ہوئی ایک خوشی ہے رقصاں
مجھ کو بھاتی تو نہیں، آئے اگر آتی ہے
قمقمے دیکھ کے اوہام کے ہر سُو روشن
تیرگی دوڑ کے ادراک میں در آتی ہے
ثبت ہے لب پہ ترے ، مہرِ خموشی اب تک
خامشی کی بھی زباں ہم کو مگر آتی ہے
ہر نوا لوٹ کے با دیدۂ تر آتی ہے
شعلگی، دستِ کرم اب کے گلوں کا ٹھہری
ہر کلی قصۂ بے داد نظر آتی ہے
خاک میں خاک یہاں رختِ سفر باندھوں گا
ریگِ صحرا ہے اڑی، اور اِدھر آتی ہے
گھٹنیوں چلتی ہوئی ایک خوشی ہے رقصاں
مجھ کو بھاتی تو نہیں، آئے اگر آتی ہے
قمقمے دیکھ کے اوہام کے ہر سُو روشن
تیرگی دوڑ کے ادراک میں در آتی ہے
ثبت ہے لب پہ ترے ، مہرِ خموشی اب تک
خامشی کی بھی زباں ہم کو مگر آتی ہے
ذوالفقار نقوی
No comments:
Post a Comment