Saturday 6 December 2014

ہے عشق میں ہر لحظہ ترقی میرے دل کی

ہے عشق میں ہر لحظہ ترقی میرے دل کی
ہر داغ بڑھاتا ہے تجلی مِرے دل کی
کیا اور سے ممکن ہو تسلی مِرے دل کی
جب آپ ہی نے کچھ نہ خبر لی ہو مِرے دل کی
رونا ہے جو فرقت میں یہی دیدۂ تر کا
طوفان میں آ جائے گی کشتی میرے دل کی
مہمان ہے جس روز سے سینے میں تیری یاد
آباد رہے اجڑی ہوئی بستی میرے دل کی
آخر کو یہ جلنے بھی لگا شعلۂ غم
فکر آپ کو ہوتی نہیں اب بھی مِرے دل کی
یا اس کی خبر بھی نہیں لیتے کبھی اب تم
یا فکر تمہیں رہتی تھی کتنی مِرے دل کی
نظروں سے تیری گِر کے ہوا عشق دوبالا
ہوتی ہے تنزل میں ترقی میرے دل کی
دِکھلا کے جھلک اور بھی تڑپا گئے اس کو
کی واہ دوا آپ نے اچھی میرے دل کی
جب قولِ وفا ہار چکا میں تو پھر اب کیا
جیتے ہوئے ہیں آپ تو بازی میرے دل کی
باطن سے ہوں نظارگئ جلوۂ جاناں
آئینہ معنی ہے صفائی مِرے دل کی
رنگینی میں، نرمی میں، صفائی میں، ضیا میں
ہے ایک سی خلقت تِرے رخ کی مِرے دل کی
نابُود ہوئے جل کے خیالاتِ دو عالم
اللہ رے تِرے عشق میں گرمی مِرے دل کی
سو جان سے کیونکر نہ ہوں جانِ تمنا
کرتی ہے بڑی قدر شناسی مِرے دل کی
ملتا ہے مزا ان کو مِرے جوشِ جنوں کا
سرخوش کر دیتی ہے انہیں مستی مِرے دل کی
یا ہجر تھا یا وصل میں اب ہو گئے بے خود
وہ خوبئ قسمت تھی، یہ خوبی مِرے دل کی

اکبر الہ آبادی

No comments:

Post a Comment