Saturday, 6 December 2014

جو لذت آشنائے درد و الفت ہے میں وہ دل ہوں

جو لذت آشنائے درد و الفت ہے میں وہ دل ہوں
اجل جس کو قیامت تک نہ آئے گی وہ بسمل ہوں
توقع رہتی ہے ہر دم کہ دم لینے کی مہلت ہے
معاذ اللہ! اپنی موت سے کس درجہ غافل ہوں
دیکھایا بے خودی نے آئینہ جب میری ہستی کو
ہوا یہ صاف روشن وہ صنم حق ہے میں باطل ہوں
عجب مضمون میں پیدا ہوا ہوں بہت ہستی میں
عبارت مین بہت آسان ہوں معنی میں مشکل ہوں
عجب مجموعہ ہوں میں سرکشی اور خاکساری کا
جو شعلہ باد و آتش سے تو آب و خاک سے گل ہوں
وہ داغِ آرزو ہوں جس سے دل دامن بچاتا ہے
کوئی پہلو نہیں ملتا جسے دنیا میں وہ دل ہوں
کہیں عاشق کا مطلب ہوں کہیں معشوق کی خواہش
کہیں مجبورِ مطلق ہوں کہیں مختارِ کامل ہوں
کہیں جذبِ محبت ہوں کہیں دردِ دلِ عاشق ہوں
کہیں دل مجھ میں داخل ہے کہیں میں دل میں داخل ہوں

اکبر الہ آبادی

No comments:

Post a Comment