Monday, 8 December 2014

کوئی تہمت ہو مرے نام چلی آتی ہے

کوئی تہمت ہو، مِرے نام چلی آتی ہے
جیسے بازار میں ہر گھر سے گلی آتی ہے
تِری یاد آتی ہے اب کوئی کہانی بن کر
یا کسی نظم کے سانچے میں ڈھلی آتی ہے
اب بھی پہلے کی طرح پیشروِ رنگ و صدا
ایک منہ بند سی بے رنگ کلی آتی ہے
چل کے دیکھیں تو سہی، کون ہے یہ دخترِ زر
روزِ اول سے جو بدنام چلی آتی ہے
یہ مِرے کرب کا عالم رہے یارب! آباد
اس زمیں سے بوئے اولادِ علی آتی ہے

انجم خیالی

No comments:

Post a Comment