Monday 8 December 2014

دیے جلا کے ندی میں بہایا کرتا تھا

دِیے جلا کے ندی میں بہایا کرتا تھا
فلک کو اپنے ستارے دکھایا کرتا تھا
چہار سمت محبت کے بھیجتا تھا رسول
میں گھر کی چھت پہ کبوتر اڑایا کرتا تھا
مِرے مزاج پہ غربت کی کوئی چھاپ نہ تھی
میں ریت کے بھی محل ہی بنایا کرتا تھا
ہزار بار بھی میں دیکھتا تھا نقش اس کے
تو واپسی پہ انہیں بھول جایا کرتا تھا
اٹھایا کرتا تھا آواز ہر ستم کے خلاف
جہاں کوئی نہیں جاتا میں جایا کرتا تھا
اسی لیے تو مِرا کاٹنا ضروری تھا
میں رہ کے دھوپ میں اوروں پہ سایہ کرتا تھا

انجم خیالی

No comments:

Post a Comment