Monday 8 December 2014

پرانے رنگ میں اشک غم تازہ ملاتا ہوں

پرانے رنگ میں اشکِ غمِ تازہ ملاتا ہوں
در و دیوار پر کچھ عکسِ نادیدہ سجاتا ہوں
مِرے اس شوق سے دریا، کنارے، سب شناسا ہیں
جہاں طوفاں ہو موجوں کا، وہاں لنگر اٹھاتا ہوں
مجھے صحرا نوردی راس آتی جا رہی ہے اب
خراباتِ چمن میں لالہ و سوسن اگاتا ہوں
تِری نغمہ سرائی کی دکاں پر جو نہیں ملتا
وہی اک نغمۂ پرسوز میں سب کو سناتا ہوں
نہ جانے کس نگر آباد ہو جاتی ہیں وہ جا کر
میں اکثر شام کو چھت سے پتنگیں جو اڑاتا ہوں
پڑے ہیں آبلے لیکن قدم پھر بھی ہیں برجستہ
میں کب سے لاش اپنی، اپنے کاندھوں پر اٹھاتا ہوں

ذوالفقار نقوی

No comments:

Post a Comment