Wednesday 3 December 2014

دل اسی سفاک فطرت پر ہے راضی بے بہا

دل اسی سفاک فطرت پر ہے راضی بے بہا
جس نے کی ہر ہر قدم پر زخم سازی بے بہا
ہے مزاج اپنا مزاجِ یار سے باندھا ہوا
اور مزاجِ یار میں ہے بے نیازی بے بہا
آج بھی سفاکیت کا بے بہا رجحان ہے
آج بھی مل جائیں گے دنیا میں نازی بے بہا
تھا سفیرِ عشق تنہا جانثاری کے لیے
مسجدِ کوفہ میں تھے یوں تو نمازی بے بہا
شاعروں کی شاعری میں واعظوں کے وعظ میں
عشق ملتا ہے حقیقی اور مجازی بے بہا
پیٹ بھرنے کے لیے دو وقت کی گندم نہیں
ہل چلانے کے لیے ہے گو اراضی بے بہا
آ کہ اب میں ہو چکا ہوں خوب جی بھر کر خراب
ہجر نے کر دی مِری کردار سازی بے بہا
تُو بھی اب چالاک بنتا جا رہا ہے افتخار
دیکھ کر اہلِ جہاں کی چالبازی بے بہا

افتخار حیدر

No comments:

Post a Comment