Wednesday, 3 December 2014

گل شکست لیے کب تلک پھروں گا میں

گلِ شکست لیے کب تلک پھروں گا میں
کبھی تو دستِ طلبگار سے ملوں گا میں
مگر وه خواب جو آئنده تک نہیں جاتا
رہے رہے نہ رہے دیکھتا رہوں گا میں
ابھی وه سلطنتِ ہجر کے نواح میں ہے
وه ایک دن جسے جی بھر کے جی سکوں گا میں
وه دیپ جس کی لویں آئینے میں روشن ہیں
اسی کی لو سے تِرے نام کو لکھوں گا میں
وه چشم جیسے کوئی داستاں سرائے تھی
سو میں وہاں تھا، وہیں ہوں، وہیں رہوں گا میں 

حماد نیازی

No comments:

Post a Comment