Wednesday 3 December 2014

رنگ اور نور کو آپس میں ملا دیتا تھا

رنگ اور نور کو آپس میں ملا دیتا تھا
میں کسی وقت میں خوشبو کا پتہ دیتا تھا
جب کوئی میری تگ و تاز نہیں جانتا تھا
اپنی روداد میں ٹیلوں کو سنا دیتا تھا
اک تیقن میں گزرتے تھے شب و روز مِرے
اور کوئی کارِ جنوں تھا جو جِلا دیتا تھا
خود سے جاتا تھا تو پھر لوٹ کے آتے آتے
دوست! میں دیر بہت دیر لگا دیتا تھا
مجھ کو رنگوں کی ضرورت ہی نہیں رہتی تھی
سورہ نور سے تصویر بنا دیتا تھا
تپتی دوپہر میں جلتے ہوئے لوگوں کے لیے
ایک پنکھا تھا دعا کا جو ہوا دیتا تھا
خواب کو بُنتے ہوئے، لوریاں سنتے ہوئےمیں
اپنے سینے کو تر و تازہ بنا دیتا تھا
بس یہی تھی مِری تخلیق، مِرا فن حمادؔ
جو بھی لکھتا تھا اسے لکھ کے مٹا دیتا تھا

حماد نیازی

No comments:

Post a Comment