Tuesday 9 December 2014

میں جو تنہا رہ طلب میں چلا

میں جو تنہا رہِ طلب میں چلا
ایک سایہ مِرے عقب میں چلا
صبح کے قافلوں سے نبھ نہ سکی
میں اکیلا سوادِ شب میں چلا
جب گھنے جنگلوں کی صف آئی
ایک تارہ مِرے عقب میں چلا
آگے آگے کوئی بگولہ سا
عالمِ مستی و طرب میں چلا
میں کبھی حیرتِ طلب میں رکا
اور کبھی شدتِ غضب میں چلا
نہیں کھلتا کہ کون شخص ہوں میں
اور کس شخص کی طلب میں چلا​

رئیس امروہوی

1 comment: